عربي | English | Türkçe | Indonesia | فارسی | اردو
438 ملاحظات
0 ووٹ
کیا ہنڈی والے سے پیسے بھیجنا جائز ہے
بذریعہ
120 پوائنٹس

1 إجابة واحدة

0 ووٹ
الجواب حامدا ومصليا :

واضح رہے کہ بذریعہ ہنڈی رقوم کی ترسیل   کو بین الاقوامی اور ملکی قوانین کے تحت ممنوع قرار دیا گیا ہے، خلاف ورزی پر قانونی گرفت ہو تو جان، مال اور عزت نفس کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، نیز اسلام جائز  ملکی قوانین کی پاسداری کا بھی حکم دیتا ہے تو ان دو وجوہات کی وجہ سے رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی راستہ  اختیار کرنا چاہیے، تاکہ جان، مال اور عزت نفس خطرے میں نہ پڑے اور جائز ملکی قوانین کی خلاف ورزی بھی نہ ہو.


ان دو پہلوؤں سے قطع نظر اگر چند شرائط کی رعایت کے ساتھ بذریعہ ہنڈی رقوم کی ترسیل ہو تو اسے حرام قرار نہیں دیا جا سکتا ہے :

سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی فقہی تکییف قرض سے کی گئی ہے؛ لہذا بیع صرف کی طرح مجلس عقد میں ہی جانبین سے قبضہ ضروری نہیں، چناں چہ قرض ہونے کی وجہ سے جتنی رقم دی جائے بغیر کمی بیشی اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہوگا، البتہ بطورِ  اجرت رقم بھیجنے والے سے الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

 ایک ملک سے دوسرے ملک رقم بھیجنے کی صورت میں کرنسیوں کا مختلف ہونا ظاہر ہے، اب یا تو جس ملک میں قرض کی ادائیگی کرنی ہے،  ادائیگی کے وقت قرض لی ہوئی کرنسی  ہی  ادا کردے اور اس میں کمی بیشی جائز نہ ہوگی،

یا  ادائیگی دوسرے ملک کی کرنسی میں کرے تو اس دن اس کرنسی کے مارکیٹ میں جو ریٹ چل رہے ہوں ان میں سے  کسی ایک ریٹ کو متعین کر کے ادائیگی کرے۔

 دوسری کرنسی میں ادائیگی کی صورت میں مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے.

---------------

قال ابن عابدين في رد المحتار على الدر المختار :
"وَفِي شَرْحِ الْجَوَاهِرِ: تَجِبُ إطَاعَتُهُ فِيمَا أَبَاحَهُ الشَّرْعُ، وَهُوَ مَا يَعُودُ نَفْعُهُ عَلَى الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَصُّوا فِي الْجِهَادِ عَلَى امْتِثَالِ أَمْرِهِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ."
( كتاب الأشربة، ٦ / ٤٦٠، ط: دار الفكر)

قال العثماني في أحكام القرآن:
"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل.
(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: ٥٩، ٢ / ٢٩١ - ٢٩٢، ط: إدارة القرآن)

قال ان عابدين في الرد:
"(قَوْلُهُ: يُعَزَّرُ)؛ لِأَنَّ طَاعَةَ أَمْرِ السُّلْطَانِ بِمُبَاحٍ وَاجِبَةٌ."
( كتاب البيوع، باب المراحبة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ٥ / ١٦٧، ط: دار الفكر)

جاء في تنقیح الفتاوی الحامدیة:
"الدیون تقضیٰ بأمثالها".
 (کتاب البیوع، باب القرض،١ / ٥٠٠، ط: قديمي)

نقل ابن عابدين في الرد من الأشباه وقال : کل قرض جر نفعاً حرام.
( کتاب البیوع، فصل فی القرض،  ٥ / ١٦٦، ط: سعید )

هذا، والله أعلم بالصواب

أبو الخير عارف محمود الجلجتي الكشميري
3/1/23
بذریعہ
300 پوائنٹس
[misc/was_useful]
[misc/was_useful_tell]
فتوی سوال و جواب میں خوش آمدید، جہاں آپ سوالات پوچھ سکتے ہیں اور دوسرے صارفین سے جوابات حاصل کر سکتے ہیں۔

سب سے زیادہ مقبول ٹیگز

متعلقہ سوالات

0 ووٹ
0جواب 87 ملاحظات
عبدالباسط پوچھا ^مہینہ ^دن، ^سال
87 ملاحظات
عبدالباسط پوچھا ^مہینہ ^دن، ^سال
بذریعہ عبدالباسط
120 پوائنٹس
0 ووٹ
0جواب 140 ملاحظات
Anas Chohan پوچھا ^مہینہ ^دن، ^سال
140 ملاحظات
Anas Chohan پوچھا ^مہینہ ^دن، ^سال
بذریعہ Anas Chohan
160 پوائنٹس
0 ووٹ
1 جواب 186 ملاحظات
محمد أنس پوچھا ^مہینہ ^دن، ^سال
186 ملاحظات
محمد أنس پوچھا ^مہینہ ^دن، ^سال
بذریعہ محمد أنس
180 پوائنٹس